۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
انسان و حیوان کے درمیان مشترکات اور مختلفات

حوزہ/ انسان کے روحانی رجحانات اس کے ایمان و عقیدہ کی پیداوار ہوتے ہیں۔ دنیا میں موجود بعض حقائق سے انسان کا دلی لگاؤ بھی اس کے رجحانات کی پیدائش کا باعث ہوتا ہے یہ حقائق انفرادیت جزویت اور مادیت سے ماوراء ہوتے ہیں۔

تحریر: محمد جواد حبیب کرگلی

حوزہ نیوز ایجنسی | انسان اور حیوان کے موضوع پر بہت سے مسلم اور غیر محققین نے قلم اٹھایا ہے اور انسان کو ہر زاوے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے لیکن اب تک کسی نے بھی کماحقہ انسان کو نہیں پہچانا اسی لئے یورپ کا مشہور رائٹر جناب الکسیس کارل ااپنی کتاب (Man, The Unknown) میں یہ اقرار کرتا ہے انسان ایک ایسا موجود ہے جسکو کسی نے نہیں پہچانا۔علماء منطق انسان کی تعریف میں یوں لکھتے ہیں "الانسان ھو حیوان ناطق" انسان کو حیوانوں میں شمار کرتے ہیں اوریہ بات بھی واضح ہے کہ انسان اور حیوان میں متعدد چیزیں مشترک ہیں لیکن اسکے باجود بعض چیزیں انسان کی ایسی ہیں جو اسے اپنے ہم جنسوں سے الگ کرتی ہیں اور دیگر جانداروں سے ممتاز کرتی ہیں انہیں امتیازات نے انسان کو اعلیٰ و اشرف بنا دیا ہے جن میں کوئی جاندار اس کا رقیب نہیں۔اس مقالہ میں انسان اور حیوان کے درمیان موجود مشترکات اور مختلفات کو ذکر کرنے کی کوشش کیا جائے گا۔
انسان کا دوسرے جانداروں کے ساتھ بنیادی فرق تین صورتوں میں واضح ہوتا ہے:
(۱) ادراکات اور شعور (Insight or Consciousness)
(۲) رجحانات اور خواہشات (Inclination or Tendencies)
(۳) افعال اور اعمال(Efforts or Acts) ۔
ان تینوں چیزوں میں انسان اور حیوان بعض حد تک شریک ہیں لیکن کچھ عوامل ایسی ہیں جو صرف انسا ن میں پائی جاتئ ہیں یہی انسانیت کا معیار اور انسانی تمدن (Civilization)و ثقافت (Culture)کا سرچشمہ بھی ہے۔
عام طور پر حیوانات ایسی نعمت سے بہرہ مند ہیں کہ جسکے بدولت وہ اپنے آپ اور باہر کی دنیا کو جان سکیں۔ حیوانات اپنی اسی آگاہی اور شناخت کے تحت اپنی آرزوؤں اور خواہشات کے حصول کی تگ و دو کرتے ہیں انسان بھی دوسرے حیوانوں طرح کی خواہشات اور آرزوؤں کا حامل ہے لہٰذا یہ بھی اپنی معرفت کے مطابق ان تک پہنچنے کی جدوجہد کرتا ہے البتہ اس کا دوسرے حیوانوں کے ساتھ فرق یہ ہے کہ اس کی آگاہی و معرفت کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اسی طرح اس کی خواہشات اور آرزوئیں بھی اعلیٰ وارفع ہیں اور اسکے اعمال اور افعال بھی حیوانوں سے الگ ہے یہی چیز انسان کو ممتا ز کرتی ہے عظمت عطا کرتی ہے ۔
انسان اور حیوان کی آگاہی (Insight or Consciousness):
انسان اور حیوان کے علم اور آگاہی میں بڑا فرق ہے جیسے اس دنیا کے بارے میں حیوان کی آگاہی فقط ظاہری حواس ہی کے ذریعہ ہوتی ہے یعنی آنکھ ، کان ، ناک ،زبان اور ہارتھ و پاوں ۔اس حدتک انسان اور حیوان دونوں مشترک ہیں لیکن انسان کا علم اس سے وسیع ہوتا ہے ۔
حیوان کی آگاہی انفرادی اور جزوی ہوتی ہے۔لیکن انسان انفرادی اور جزوی علوم کے ساتھ ساتھ کلیت اور عمومیت سے بھی مال مال ہوتا ہے۔
حیوان کی آگاہی خاص علاقہ تک محدود ہوتی ہے حیوان کی زندگی کے دائرے تک محدود رہتی ہے۔لیکن انسان کا علم لامحدود ہوتا ہے اور جھانی ہوتا ہے کسی خاص منطقہ سے مربوط نہیں ہوتا ہے ۔
حیوان کی آگاہی فقط زمان حال سے متعلق ہوتا ہے اسے ماضی و مستقبل کے بارے میں علم نہیں ہوتا ہے۔ حیوان اپنی تاریخ سے آگاہ ہے نہ تاریخ عالم سے آشنائی رکھتا ہے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے نہ اس کے لئے کوئی ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔لیکن انسان وہ موجود ہے جسکو اپنی ماضی ، حال اور مستقبل تینوں زمانوں کے بارے میں علم ہوتا ہے وہ ماضی کی تاریخ سے عبرت حاصل کرتا ہے اور مستقبل سازی پر بھی غور کرتا ہے ۔
حیوان ان چار زندانوں میں قید ہے اور وہ زندان انفرادیت، جزیت ، محدویت اور حال ہے۔ اگر کبھی اس قید و بند سے باہر نکلے تو شعور و آگاہی اور اختیار کے ساتھ باہر نہیں آتا بلکہ غیر شعوری طور پر جبلت و طبیعت کے تحت مجبوراً باہر نکلتا ہے۔لیکن انسان ان تمام قیود سے آذاد ہے وہ اپنی عقل کی توانی سے اعلی مقامات پر فائز ہوسکتا ہے۔
انسان اور حیوان کی رجحانات اور خواہشات: (Inclination or Tendencies):
جس طرح کائنات کے بارے میں حیوانی شناخت محدود ہے اسی طرح حیوانی خواہشات بھی خاص حدود ہی کے اندرمقید ہیں۔
۱: یہ خواہشات مادی ہیں کھانے، پینے ،کھیلنے، سونے ،گھر بنانے ، بچا پیدا کرنے اور جنسی لذت کے حصول تک محدود ہیں حیوان کے لئے اخلاقی و معنوی اقدار معنیٰ نہیں رکھتیں۔ لیکن انسان ان سب کے باوجود مادی ، معنوی، اخلاقی اور انسانی اقدار کا مالک ہے ۔
۲: ذاتی اور انفرادی خواہشات ہیں جو اس کے اپنے ساتھ ہی مربوط ہیں یا زیادہ سے زیاد اس کے اپنے جوڑے اور اولاد کے اردگرد گھومتی ہیں۔لیکن انسان کی خواہشات ذاتی بھی ہے اور الہی اور انسانی بھی ہے وہ کبھی کبھی اپنی ذاتی خواہشات کو الھی اور انسانی مفادات پر قربان کرتا ہے ۔
۳: حیوان کی خواہشات ایک خاص علاقہ تک محدود ہیں اور اس کی زندگی کے دائرے میں ہیں۔لیکن انسان کی خواہشات کسی خاص علاقہ میں قید نہیں ہے بلکہ وہ ہر وقت اور ہر جگہ اس سے حاصل کرسکتا ہے ۔
۴: زمان حال ہی سے متعلق ہوتی ہیں۔لیکن انسان کی خواہشات تینوں زبانے سے مربوط ہے ۔
مختصر یہ کہ جو محدودیت حیوان و ادراک کے پہلو میں ہے وہی محدودیت اس کے میلانات و خواہشات میں بھی پائی جاتی ہے لہذا حیوان اس اعتبار سے بھی ایک خاص زندان میں مقید ہے۔لیکن انسان ان تمام زندانوں سے باہر ہے اور وہ اپنے اختیارات سے کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
انسان اور حیوان کے افعال اور اعمال(Efforts or Acts) :
انسان ااور حیوا ن کےاعمال اور افعال کی دنیا میں بھی ایک دوسرے الگ ہیں حیوان کے تمام اعمال طے شدہ ، معین ، جبر،محدد ، ذاتی ،مادی اور لاشعوری کے زندانوں میں قید ہے لیکن انسان اہنے تمام کاموں میں مختار ہے اسکا ہر کام مادی اور معنوی ، ذاتی او ر غیر ذاتی ، بشری اور الہی ساتھ ساتھ میں شعور کے ہمراہ ہوتاہے وہ حیوانوں کی طرح فقط اپنی ذات کے لئے کام نہیں کرتا ہے بلکہ وہ کچھ کاموں میں خدا، دین اور اخلاقی اقدار کو اپنی ذات پر مقدم کرتا ہے او ر ان کاموں کو انجام دیتا ہے جو اس کے نفس اورخواہشات کے مخالف ہوں ۔جیسے انسان اپنے آپ کو راہ خدا میں شہیدکرتا ہے ۔یہ سب انسان اپنی عقل اور ذہانت کے بنا پر انجام دیتا ہے اسی عقل اور ذہانت کے بنا پر اسےعلم اور ایمان حاصل کرتا ہے ۔
انسانی امتیاز کا معیار(human discrimination)
جہاں قدرت کسی سے پھیر لیتی ہے نظر اپنی وہیں انسان کی بے مائیگی معلوم ہوتی ہے کائنات کے بارے میں انسان کی آگاہی وسیع ہے اور اس آگاہی کی تکمیل میں صدیوں کی انتھک محنت کارفرما ہے خاص قواعد و ضوابط اور منطقی اصولوں کے خمیر سے حاصل ہونے والی اس آگاہی اور شعور کو"علم" سے موسوم کیا جا تاہے یہاں علم سے مراد ہے کائنات سے متعلق وہ تمام بشری افکار کا مجموعہ جو انسان کی اجتماعی کوششؤں کا ثمر ہے۔ اور ایک خاص منطقی نظم و ترتیب سے آراستہ ہے۔ انسان کے روحانی رجحانات اس کے ایمان و عقیدہ کی پیداوار ہوتے ہیں۔ دنیا میں موجود بعض حقائق سے انسان کا دلی لگاؤ بھی اس کے رجحانات کی پیدائش کا باعث ہوتا ہے یہ حقائق انفرادیت جزویت اور مادیت سے ماوراء ہوتے ہیں۔ عمومیت کے حامل ہوتے ہیں۔ نفع و سود کے درپے نہیں ہوتے ایسا ایمان اور قلبی لگاؤ اپنے مقام پر خود سے ایسے تصور کائنات کے لئے رحم کا کردار ادا کرتا ہے جو پیامبران خدا نے بشریت کو عطا کیا ہے یا پھر ایمان افروز فکر پیش کرنے والے فلسفی نے پیش کیا ہے۔ پس نتیجہ یہ نکلا کہ انسان اور دوسرے جانداروں کے درمیان اہم اور بنیادی فرق علم و ایمان ہے۔ علم و ایمان ہی انسانیت کا معیار ہے اور اسی پر انسان کی انسانیت کا دارومدار ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .